عبدالرافع رسول
rafaerasool@yahoo.com
موجودہ دور کے سب سے بڑے
جنگی جرائم کے مجرموں سابق امریکی صدر جارج بش اور سابق برطانوی وزیر اعظم
ٹونی بلیئر کہ جو عراق اورافغانستان میں لاکھوں انسانوں کے قتل کے جرم میں
ملوث ہیں میں سے سابق برطانوی وزیر اعظم اور عراق پر فوج کشی میں صدر بش کے
دست راست ٹونی بلئیرنے عراق جنگ میںاپنے شرمناک کردار پرمعافی مانگ لی ہے
۔19اکتوبر2015کوامریکی صدارتی امیدوارہیلری کلنٹن کی منظرعام پر آنے والی
خفیہ ای میل سے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کا دوغلہ چہرہ کھل
کرسامنے آ گیا ہے، ای میل کے مطابق دنیا کے سامنے امن کاراگ الاپنے والے
ٹونی بلیئر نے عراق جنگ سے ایک سال قبل ہی اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کے
سامنے سر تسلیم خم کردیا تھا۔ہیلری کلنٹن کی سابق امریکی سیکرٹری دفاع
کولن پاول کو بھیجی جانے والی خفیہ ای میل نے امریکہ سے یورپ کے ایوانوں تک
موضوع چھیڑ کر دیا۔28مارچ2002میں بھیجے گئے خفیہ میمو کے مطابق ٹونی بلیئر
نے عراق جنگ سے ایک سال قبل ہی صدر بش کے عراق پر حملے کی حمایت کردی تھی
یہ وہ وقت تھاکہ جب ٹونی بلئیر اپنے دور اقتدار میں یہی کہتے رہے کہ وہ
عراق پر حملے خلاف ہیں۔عراق جنگ پر حمایت کے بدلے میں امریکی صدر بش نے
لیبر پارٹی میں ٹونی بلیئر کی ساکھ بحال رکھنے کے لئے کردار ادا کیا
اوردنیا کو یہ تاثر دیا کہ برطانیہ امریکا کا ملازم نہیں بلکہ برابر کا
شراکت دار ہے۔اس خفیہ دستاویزکے سامنے آنے پراب بلئیرکے لئے کوئی چارہی نہ
بچاکہ وہ اعتراف جرم کریں چنانچہ24اکتوبر2015ہفتے کوامریکی ٹی وی سی این
این کے ساتھ انٹرویو میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیرنے بالآخراس جرم
کا اعتراف کرہی لیا کہ2003میں عراق پرجارحیت اوراسکے نتیجے میں انیس لاکھ
بے گناہ انسانوں کے قتل میں ان کا مرکزی کردار تھا،انہوں نے اقرار کیا کہ
عراق پرحملہ جھوٹی اطلاعات پر کیا گیا۔کچھ روز قبل عراق جنگ سے متعلق خفیہ
دستاویزات منظرعام پرآئیں جس میں سابق امریکی صدر بش اور ٹونی بلیئر کے
درمیان خفیہ ای میلز اور پیغامات کا انکشاف ہوا جس سے پتہ چلا کہ دونوں
جنگی مجرموں بش اوربلئیر اس جھوٹی جنگ کے منصوبہ ساز تھے۔اس اہم راز کے
افشا ہونے کے بعد سابق برطانوی وزیراعظم کو مجبورہو کر یہ کہنا پڑا کہ وہ
عراق جنگ میں اپنے کردار پر شرمندہ ہیں اور عراق پرحملہ جنگی جرم تھا۔اس
قبل وہ کہتے رہے کہ عراق پرحملے کاانہیں کوئی صدمہ نہیں ہے۔2007میں بلئیرنے
سینہ تان کرکہاتھاکہ انہیں عراق پرحملے کی شراکت داری پرفخرحاصل ہے ۔
کچھ سیاست دان پیدائشی طور قدرے ڈھیٹ ہوتے ہیں اور ان کے جینز میں شرمندہ
ہونے کے وصف کے ثبوت تاحال کسی سائنسی تحقیق سے نہیں ملے اور نہ ہی ایسا
کوئی احتمال پایا جاتا ہے۔ تاہم ڈھیٹ ہونے کا معیار سب میں یکساں نہیں
ہوتا۔ کچھ تو اپنی محنتِ شاقہ سے اسے اوجِ کمال تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس پر
یہی کہا جاسکتا ہے…ایں سعادت بزورِ بازو است۔سابق برطانوی وزیرِ اعظم مسٹر
ٹونی بلیئر ان نابغہ روز گار ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کے دم قدم سے بے
شرمی، ڈھٹائی پن اور ہٹ دھرمی نے نئے معانی پائے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ
بہت سے سروے پول ظاہر کرتے ہیں کہ ایک تہائی برطانوی شہری انہیں ایک جنگی
مجرم قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے خبطی خیالات کی ترویج سے باز
آنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
عام تباہی کے ہتھیار رکھنے سے لے کر نائن
الیون کی سازش میں ملوث ہونے تک صدام حسین کو مغربی طاقتوں نے ہر ہر جرم
کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کی۔ اسکے بعد عراقیوں کی آزادی کا بہانہ بنایا
گیا اور وہاں لوگوں کو جمہوریت کے قیام کے خواب دکھائے گئے۔ غرض یہ کہ
حالات بیک وقت پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہیں پورے منصوبہ بند طریقے سے پیدا
کیا گیا اور قابل ذکر ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں تھامس فریڈمین اور
ان جیسے دیگر مغربی صحافیوں کا ہی عمل دخل تھا۔ پھر اس کے جو نتائج برآمد
ہوئے وہ آج کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔عراق کبھی دنیا کے امیر ترین اور
قدیم ترین ممالک میں سے ایک تھا لیکن آج اسے پوری طرح برباد کیا جا چکا
ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی اور معاشی سطح پر بھی اس ملک کو ایسا زبردست نقصان
اٹھانا پڑا ہے جو فی الحال تو ناقابل تلافی نظر آتا ہے۔ ایک خاص طبقے
کوملک حوالہ کعدیاگیاجس نے فرقہ وارانہ تشددکوبھڑکادیااورآج یہاںفرقہ
واریت عروج پر ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اس ملک کے دگرگوں حالات پورے مشرق
وسطی کے استحکام کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ عراق جنگ کو 12 سال ہو گئے ہیں۔ یہ
امریکا کا نئی صدی کا ایک منصوبہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے
یہ سب کچھ کیا۔ بہرحال عراق جنگ کے نتائج نے امریکا کے تمام دعوئوں اور
وعدوں کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ سب کچھ جھوٹ نکلا، بالکل سفید جھوٹ۔
اس کے
باوجود حد درجہ افسوس کا مقام ہے کہ امریکا کے سابق صدر جارج بش، برطانیہ
کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور تھامس فریڈ مین جیسے ان حامیوں نے کبھی
پچھتاوے یا معافی کے طور پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ علیٰ الرغم اسکے کہ عراق
کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس پر پچھتانے یا معافی مانگنے کی بجائے
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیرنے کل تک دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے
ہوئے عراق کی طرز پر دیگر مسلم ممالک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی حمایت ظاہر کی
تھی ۔ یہ اب ہواکہ کچھ رازافشاہونے سے شایدٹونی بلئیرکے تکبرکابٹ ٹوٹااوروہ
معافیانہ الفاظ کہنے پرمجبورہواورنہ اکڑموجودتھی ۔سوال یہ ہے کہ کیا
دریائے دجلہ اور فرات کی اس سر زمین پرجولاکھوں نفوس کوقتل کیاگیاٹونی
بلئیرکی معافی یااس پرشرمندگی کااظہارکرنے سے سب معاف ہوجائے گا۔ کیا
ہزاروں سال پرانی عراقق تہذیب وثقافت کے ساتھ جوحشرکیاگیایہ آسانی کے ساتھ
صرف نظرہوجائے گا ؟بش اورٹونی کی عراق پرجارحیت سے حقیقت یہ ہے کہ عراق
تمام پہلووں سے تباہ وبربادہوا۔قتل وغارت گری اور ہلاکتوں کے پس منظر میں
اگر دیکھا جائے تو عراق سے امریکیوں کے شکست کھانے کے بعد سے آج تک کیلئے
خونی کھیل جاری ہے۔
عراق دن بہ دن خون آلود ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں ٹونی
بلئیرکاتباہ حال عراق پر اظہار افسوس کرنا اس منافقت کا غماز ہے جو ہمیشہ
سے ہی مغرب اور مغرب کے حامیوں کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ان کا یہ خیال منافقت
سے کچھ زیادہ اپنے اندر مجرمانہ پہلو بھی لئے ہوئے ہے۔ کیا یہ ظلم کی
انتہا نہیں ہے کہ عراق کی اس صورتحال کیلئے جو طاقتیں ذمہ دار ہیں وہ اس
طرز کے مزید منصوبوں کی وکالت کر رہی ہیں؟
بلئیرکی اسلام اورمسلمانوں
کے خلاف یاوہ گوئی ڈھکی چھپی نہیں۔2014میں بلوم برگ ، لندن، میں ایک عوامی
مقام پر کی جانے والی تقریر میں بلئیرنے مغرب کومشورہ دیا کہ وہ اسلامی
انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روس اور چین کے ساتھ اتحاد کرلے۔ بلیئر
کے مطابق یہ انتہا پسند عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن مغرب نے
ان سے چشم پوشی کی پالیسی اپنائی ہوئے ہے۔ اپنی اس تقریرمیںبلئیر مغربی
دالحکومتوں پر زور دیا کہ وہ مشرقِ وسطی میں جاری کشمکش میں فریق بنتے ہوئے
ان معتدل مزاج قوتوں کے ہاتھ مضبوط کریں جو بنیاد پرستوں کے خلا ف صف آرا
ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر مصر میں فوجی حکومت کی وکالت کرتے ہوئے اس کی
اخوان کے خلاف کاروائیوں کی حمایت کی۔بنیادی طور پر ان کی تقریر صدر بش کی
طرف سے شروع کی جانے والی نام نہاد دہشت گردی کی نہ ختم ہونے والی جنگ کااز
سرنو احیا کرنے کی درخواست تھی۔ اگر گزشتہ ایک عشرے سے دنیا میں پیش آنے
والے واقعات نے ہمیں کچھ سکھایا ہے(اگر دنیاکے بڑے طاقتورممالک کچھ سیکھنے
کے لیے تیار ہیں)کہ دنیاکے کئی گوشوں میں موجودبڑے بڑے مسائل جن کاتعلق
اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ ہے کوحل کرکے ہی پوری دنیامیں امن قائم
کیاجاسکتاہے۔اس کے علاوہ ان مسائل کے حل واشنگٹن یا لندن سے نہیں آئیں گے
اور نہ ہی ان کے بالمقابل مغرب، چین اور روس پر مشتمل کوئی الائنس بنانے کی
حماقت کام آئے گا۔اب جب ٹونی بلیئر جیسے قاتل جن کے اپنے ہاتھ خون سے
آلودہ ہوں، ایسے مشورے دیتے ہوں تو؟؟؟؟
اس سے قبل23نومبر2008کونئی دہلی
میں ٹونی بلیئر نے اسلام کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی
اسلام کی دین ہے اور ا س سے اسی مذہب کے ماننے والوں کو نمٹنا ہو گا ۔دہلی
میں’’ لیڈر شپ کانفرنس ‘‘میں تبادلہ خیال کے ایک سیشن کے دوران اسلام اور
مسلمانوں کے تئیں اپنی نفرت اگلتے ہوئے عراق جنگ میں صدر امریکہ جارج ڈبلیو
بش کی بھرپور تائید کرنے والے بلیئر نے کہا کہ ہمیں یہ سوچ یکسر بدل دینا
چاہئے کہ دہشت گردی کا تعلق مذہب اور کلچر سے ہے اس کا خاتمہ اسی مذہب اور
کلچر میں تبدیلی کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔ کانفرنس میں ٹونی بلیئر کاکہناتھاکہ
دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے اسلام میں اعتدال پسندوں کی حوصلہ
افزائی کی ضرورت ہے اور دہشت گردی کو نظریات کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے
بلئیرکایہ بلیغ اشارہ مغرب کی جانب سے چھیڑی گئی اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ
کی تائید کی طرف تھااور 18مارچ 2013کوٹونی بلیئرنے ایک انٹرویو میں کہاکہ
عراق پر جارحیت کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ ٹونی بلیئر کاکہناتھاکہ مجھے عراق
جنگ کے فیصلے پر کسی قسم کی ندامت نہیں۔ لیکن اب اپنی ہی زبان سے وہ اس
واضح حقیقت کااعتراف کرتے ہوئے اس سچائی کومانتے ہیں کہ وہ اوربش دونوںعراق
،میں نسل کشی اورجنگی جرائم کے ذمہ دارہیں۔امریکہ نے ٹونی بلیئر کو 2007
میں برطانیہ کی وزارتِ عظمی چھوڑنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایلچی کا
عہدہ دیا تھا۔
مشرق وسطی کے موضوع پر اپریل 2014میں ٹونی بلئیر نے اپنے
ایک تقریرمیں واضح طور پر اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کر دیا
تھا۔انہوں نے مسلم دنیا کے ہنگاموں کو ناقابل فہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا
کہ وہ لوگ ہماری حمایت کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ٹونی بلئیر کا یہ خطاب اشتعال
انگیز اور سخت تھا اور کہا جاسکتا ہے کہ کافی طویل وقت کے بعد کسی مغربی
لیڈر نے اس طرح کی تقریر کی تھی۔ بہرحال اس خطاب کے ذریعے جنہیں نشانہ
بنایا گیا تھا یعنی مسلم ممالک، انہوں نے اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی۔
ٹونی بلئیر نے اپنی منفی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکسویں صدی
میں عالمی سلامتی کیلئے اسلامی شدت پسندی ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ خطرہ کم نہیں
ہو رہا ہے بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس
خطرے سے طبقات بلکہ قومیں تک متزلزل ہو رہی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں
یہ خطرہ باہمی امن و امان کے ساتھ رہنے کے امکان کو بھی کم کر رہا ہے اور
ہم اس کا سامنہ کرنے کیلئے کمزور پڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔یہ ہے اس لیڈر
کی تقریر جسے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے مشرق وسطی میں قیام امن کی
کوششوں کیلئے متعین کیا تھا۔ کوئی مسلم لیڈر اگر اس طرح عیسائیت اور
صہیونیت کے خلاف بیان دے تو ہنگامہ مچ جائے۔ مختلف جنگوں کے ذریعہ انسانیت
کو سب سے زیادہ نقصان کس نے پہنچایا، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ کچھ
صدیوں پہلے تک دنیا پر استعماری اور استبدادی نظام کے ذریعے حکمرانی کس نے
کی، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ دنیا کے مختلف حصوں میں کن طاقتوں نے
فوجی اڈے اور اسلحہ کے کارخانے بنا رکھے ہیں؟
17ستمبر2013کوممتاز
امریکی اسکالر نوم چومسکی نے یہ صحیح کہاتھا کہ عراق و افغانستان پرجارحیت ،
پاکستان،سوریہ، یمن میں ڈرون حملوں اور عرب ریاستوں میں شورش برپا کرنے پر
امریکی صدر باراک اوباما، سابق صدر جارج بش اور سابق برطانوی وزیراعظم
ٹونی بلیئرکیخلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمات چلائے جائیں۔ انھوں نے روسی
میگزین رشیا ٹوڈے کو انٹرویو میں پاکستان، افغانستان، یمن اورصومالیہ میں
ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے وسیع پیمانے پردہشت پھیلانے کی مہم
قراردیا اورکہاکہ عراق میں حملہ حالیہ تاریخ کا بدترین جنگی جرم ہے اوران
کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے، ڈرون حملے خوفناک
اور دہشت پھیلانے والا ہتھیارہیں۔لیکن یہ کون کرے کیونکہ امت مسلمہ میں آج
کوئی قایدہی ایساموجودنہیں کہ جوباطل کوللکارکرکہتااے ظالموں ہم پرظلم
کرنابندکردو۔